صفحات

ہفتہ، 27 اپریل، 2019

Sugar ka Ellaj

🎇🕌🌴🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🌴🕌🎇🎇🕌🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🕌🎇🎇🕌🌴🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🌴🕌🎇

شوگر کا علاج ---انسولین سے جان چھڑائیں 


شوگر کے مریض پودا لگائیں اور انسولین سے جان چھڑائیں

ذیابیطس یا شوگر ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے قریب قریب پاکستان کا ہر دوسرا خاندان متاثر ہو چکا ہے. جس شخص کو یہ بیماری لاحق ہو جائے وہ زندگی بھر کے لئے پر ہیز، دواؤں اور بالآخر انسولین کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے کیونکہ ابھی تک اس کا کوئی شافی علاج دریافت نہیں ہو سکا۔.
لیکن آپ کو یہ بات جان کر حیرت ہو گی کہ کرہ ارض پر ایک ایسا پودا بھی موجود ہے جس کی مدد سے انسان زمانہءِ قدیم سے شوگر کا علاج کرتا چلا آ رہا ہے. کیا آپ اس پودے کے بارے میں جانتے ہیں؟ اس پودے کو دنیا بنابا کے نام سے جانتی ہے۔
بنابا . . . جسے سائنسی زبان میں Lagerstroemia speciosa کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
بنابا قدرتی طور پر فلپائن، بھارت اور ملائشیا میں پایا جاتا ہے۔
پانچ سال پہلے تک یہ پودا پاکستان میں نہیں تھا لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ اب یہ پودا نہ صرف پاکستان میں موجود ہے بلکہ کامیابی سے نشوونما بھی پا رہا ہے۔
پاکستان میں یہ پودا ضلع ساہیوال کے ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر اور جدت پسند کاشتکار جناب محمد سرفراز نے متعارف کروایا ہے. محمد سرفراز نے بنابا کا یہ پودا بیرون ملک سے جیسے تیسے حاصل کیا تھا. تین سال تک اپنے کھیت پر بنابا کی افزائش نسل کرنے اورشوگر کے کئی مریضوں پر آزمانے کے بعد اب وہ اس پودے کو عام کرنا چاہتے ہیں۔
اس پودے کو ماہرین نے سن 1940 میں سائنسی طور پر پرکھنا شروع کیا. تب سے آج تک اس پودے میں 40 سے زائد طبی اجزاء دریافت ہو چکے ہیں جن میں سب سے اہم کوروسالک ایسڈ ہے. یہی وہ طبی جز ہے جو شوگر یا ذیابیطس کے علاج میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
سرفراز کا یہ دعوٰی ہے کہ بنابا کے پتوں کا قہوہ پینے سے شوگر کا مریض ایک سال کے اندر اندر مستقل طور پر تندرست ہو جاتا ہے۔
راقم نے یہ مضمون لکھنے سے پہلے بنابا کی افادیت پر شائع ہونے والی تحقیق کو کئی مہینوں تک کھنگالا ہے۔ جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سرفراز کا دعوی کچھ غلط نہیں ہے۔
سرفراز شوگر کے مریضوں کو بنابا کا قہوہ تجویز کرتا ہے۔
قہوہ بنانے کے لئے ایک دیگچی میں دو کپ پانی لیں اور اسے چولہے پر چڑھا دیں. پانی کو ابلنے دیں یہاں تک کہ دو کپ پانی کم ہو کر ایک کپ رہ جائے. بنابا کے 3 تازہ یا خشک پتے لیں اور انہیں اپنے ہاتھوں سے اچھی طرح مسل کر اس کھولتے ہوئے پانی میں ڈال دیں. تھوڑی دیر ابالنے کے بعد دیگچی چولہے سے اتار لیں. آپ کا قہوہ تیار ہے جسے آپ حسب ذائقہ لیموں، ملٹھی، سونف یا چینی ملا کر پی سکتے ہیں. یہ قہوہ آپ بنابا کے خشک پتوں سے بھی بنا سکتے ہیں. کرنا یہ ہے کہ بنابا کے پودے سے پتے توڑ لیں اور انہیں اچھی طرح دھو کر سائے میں خشک کر لیں. اب ان خشک پتوں کو سنبھال لیں۔ پتوں کو گرائنڈر وغیرہ میں ڈال کر اس کا پاؤڈر بھی بنایا جا سکتا ہے. اب آپ ان پتوں یا پتوں کے پاؤڈر کو چائے کی پتی کے طور پر استعمال کر کے قہوہ بنا سکتے ہیں۔
آپ نے بنابا کا قہوہ دن میں دو مرتبہ صبح اور شام استعمال کرنا ہے. راقم کے ذاتی مشاہدے کے مطابق ایک مریض کا شوگر لیول قہوہ پیتے ہی کم ہو گیا جبکہ دوسرے مریضوں کی شوگر کم ہوتے ہوتے ایک سے دو ہفتے لگے۔ سرفراز کا ماننا ہے کہ دو ہفتے تک مسلسل قہوہ پینے سے آپ کو کوئی فرق محسوس نہیں ہو گا. دو ہفتے کے بعد بہتری آنا شروع ہو جائے گی. جیسے ہی آپ کو محسوس ہو کہ آپ کی شوگر کم ہو رہی ہے تو آپ اپنی میڈیسن یا انسولین کی مقدار کو کم کرنا شروع کر دیں.
سرفراز کا ماننا ہے کہ چھ مہینے تک مسلسل بنابا کا قہوہ پینے سے مریض کی انسولین یا دوائیوں سے مستقل جان چھوٹ جائے گی اور مریض مکمل طور پر صحت مند ہو جائے گا۔
راقم نے بھی سرفراز سے بنابا کے پتے منگوا کر دو مریضوں کو دئیے جنہوں نے مسلسل چار ماہ تک یہ پتے استعمال کئے اور نتائج تسلی بخش رہے۔
حوالے کے طور پر ان میں سے ایک مریض محمد افضل کی تفصیل میں آپ سے شئیر کرتا ہوں۔
محمد افضل، فیصل آباد میں راقم کے ہمسائے ہیں جو گزشتہ 7 سال سے شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ عام مریضوں کی طرح وہ گولیوں سے انسولین پر شفٹ ہو چکے تھے۔ صبح کے وقت 40 پوائنٹ اور شام کو 25 پوائنٹ انسولین لگاتے تھے۔ 
راقم کے قائل کرنے پر انہوں نے بنابا کا قہوہ استعمال کرنا شروع کیا۔ محمد افضل کاروباری شخص ہیں اور اپنی مصروفیات کی بنا پر باقائدہ قہوہ نہیں پی سکے۔ ایک تو انہوں نےدن میں دو کی بجائے محض ایک مرتبہ ہی قہوہ استعمال کیا۔ اور دوسرے کبھی کبھی وہ قہوہ چھوڑ بھی دیا کرتے تھے۔
وہ پتے جو ایک مہینے میں ختم ہو جانے چاہئیں تھے چار ماہ کے بعد بھی کچھ پتے باقی ہیں جنہیں وہ اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق استعمال کرتے رہتے ہیں۔
اس قدر بے قائدہ استعمال کے باوجود محمد افضل کا شوگر لیول اچھا خاصا کم ہوا ہے۔ اور آج کل وہ صبح کے وقت 40 کی بجائے 20 اور رات کے وقت 25 کی بجائے 15 پوائنٹ انسولین لگا رہے ہیں۔
دوسرے مریض نے بھی بنابا کو باقاعدگی سے استعمال نہیں کیا لیکن ان کی شوگر بھی قابل ذکر حد تک کم ہوئی ہے۔
محمد سرفراز کا اس پودے کے بارے میں کیا دعوی ہے؟ اس پر تو ہم نے بات کر لی ہے. آئیے اب ہم آپ کو بنابا پر دنیا بھر میں کی جانے والی تحقیق کی ایک جھلک دکھاتے ہیں۔
سوزوکا یونیورسٹی آف میڈیکل سائنس، جاپان کے تین سائنس دانوں نے دنیا کے مختلف خطوں میں کئے جانے والے 8 تجربات کا تنقیدی جائزہ لیا. ان آٹھوں‌ تجربات میں شوگر کے مریضوں کی بنابا کے ذریعے علاج کرنے کی کوشش کی گئی. ان تمام تجربات میں یہ بات سامنے آئی کہ جب ان مریضوں کو بنابا کا جوشاندہ دیا گیا تو زیادہ سے زیادہ 2 گھنٹے کے اندر اندر ان کے شوگر کا لیول 10 فیصد سے لے کر 30 فیصد تک کم ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص کی شوگر 200 پر تھی تو وہ بنابا استعمال کرنے کے بعد کم ہو کر 180 سے 140 تک گر گئی۔
اسی طرح وگنان فارمیسی کالج، انڈیا سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں نے انٹرنیشنل جرنل آف فارماسیوٹیکل سائنسز اینڈ ریسرچ میں ایک مقالہ شائع کیا ہے جس میں بنابا پر ہونے والی 20 سے زائد مختلف تحقیقات کو جمع کیا گیا ہے. اس مقالے کے مطابق، بنابا کی جڑوں، پتوں اور پھولوں میں پائے جانے مختلف طبی اجزاء سے شوگرکے علاوہ موٹاپے، گردے کی بیماریوں اور ہائپر ٹینشن وغیرہ کا علاج بھی ممکن ہے۔
اوپر پیش کئے جانے والے حوالہ جات بنابا پر ہونے والی تحقیق کی محض ایک جھلک ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بین الا قوامی کمپنیوں نے بنابا پر ہونے والے تحقیق کی مدد سے کئی ایک ادویات اور پراڈکٹ تیار کر رکھے ہیں جنہیں آپ بھی ای مارکیٹنگ کی ویب سائٹ، ایمازان پر دیکھ سکتے ہیں
تصویر میں آپ بنابا چائے یعنی ٹی بیگ کا پیکٹ دیکھ سکتے ہیں جسے امریکہ کی ایک بین الاقوامی کمپنی ٹی ہیون نے شوگر اور دیگر مسائل کا شکار لوگوں کے لئے تیار کیا ہے. اس پیکٹ میں کل 25 ٹی بیگ ہیں. پیکٹ کی قیمت 4430 روپے رکھی گئی ہے۔
اس ڈبی میں بھی شوگر کے مریضوں کے لئے 60 کیپسول پیک کئے گئے ہیں جنہیں امریکہ کی ایک بین الاقوامی کمپنی نے بنابا کے پتوں سے تیار کیا ہے.کمپنی نے اس ڈبی کی قیمت 1035 روپے رکھی ہے۔
نمونے کے طور پر آپ ایک تیسرا پراڈکٹ بھی دیکھ لیں جسے امریکہ کی ہی ایک کمپنی سوانسن ہیلتھ پراڈکٹس نےبنابا کے پتوں سے شوگر کے مریضوں کے لئے تیار کیا ہے. اس ڈبی میں 90 کیپسول ہیں اور اس کی قیمت 960 روپے مقرر کی گئی ہے۔
اوپر درج کئے گئے تجربات و پراڈکٹ سے یہ بات واضح ہو جاتی کہ سرفراز کا دعوی بڑی حد تک درست معلوم ہوتا ہے۔
سرفراز کا کہنا ہے کہ بنابا ایک ایسا پودا ہے جو ہر گھر میں ہونا چاہئے. یہی وجہ ہے کہ انہوں کے دن رات محنت کر کے بنابا کے 1000 پودے تیار کئے ہیں۔
اگر آپ بنابا کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو محمد سرفراز کے موبائل نمبر پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
03008690677
یہ نمبر محمد سرفراز کی اجازت سے دیا گیا ہے.
انتباہ
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں ایک ایسا پودا بھی ہے جو بنابا سے اس قدر ملتا جلتا ہے کہ آپ اس کو بنابا سمجھ کر دھوکہ کھا سکتے ہیں. اور وہ پودا ہے . . . گلِ فانوس . . . جس کا سائنسی نام Lagerstroemia indica ہے. گلِ فانوس کا پودا، بنابا کے پودے سے اس قدر ملتا جلتا ہے کہ اس کی مثال دو ایسے جڑواں بھائیوں کی سی ہے جن کو پہچاننے میں بعض اوقات گھر والے بھی دھوکہ کھا جاتے ہیں۔.
لہذا اس حوالے سے آپ کو چاکنا رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں آپ گل فانوس کو بنابا نہ سمجھ بیٹھیں۔.
تحریر
ڈاکٹر شوکت علی
ماہر توسیع زراعت، فیصل آباد
اظہار تشکر
محمد سرفراز، ہومیوپیتھک ڈاکٹر و جدت پسند کاشتکار، ساہیوال
نوٹ
ایگری اخبار یا راقم کا سرفراز کے ساتھ کسی قسم کا کاروباری تعلق نہیں ہے۔ محض بہبود عام کے لئے یہ آرٹیکل لکھا گیا ہےہ:

گل فانوس اور بنابا کے درمیان سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ گل فانوس بڑا جھاڑی نما پودا ہوتا ہے جبکہ بنابا کا خوب بڑا درخت ہوتا ہے- بنابا کے پھول قدرے ھلکے جامنی رنگ کے ہوتے ہیں جبکہ گل فانوس قدرے تیز گلابی رنگت کا ہوتا ہے- آخری تصویر میں بنابا اور گل فانوس کا فرق دکھایا گیا ہے-
پاکستان میں بنابا لیف پاوڈر daraz.com پر دستیاب ہے-


🎇🕌🌴🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🌴🕌🎇🎇🕌🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🕌🎇🎇🕌🌴🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🌴🕌🎇

بدھ، 10 اپریل، 2019

Tonsils men Kharabi, Elaaj, Alamaat aur Ahtiyat

🎇🕌🌴🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🌴🕌🎇🎇🕌🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🕌🎇🎇🕌🌴🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🌴🕌🎇

*ٹانسلز - کام , مسائل , علامات اور علاج*

*ٹانسلز میں مسائل کی علامات جانتے ہیں؟*

یقیناً آپ جانتے ہوں گے کہ ٹانسلز کیا ہیں اور کہاں ہوتے ہیں، مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ غدود کیا کرتے ہیں اور ان میں مسائل کی علامات کیا ہیں؟
درحقیقت ٹانسلز میں مسائل بہت زیادہ عام ہوتے ہیں اور ہر سال لاکھوں افراد گلے کے اس غدود کو نکلوانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
تو یہ جان لیں کہ ٹانسلز کیا ہوتے ہیں اور ان میں مسائل ہونے پر کیا کرنا چاہئے۔

*ٹانسلز کیا کام کرتے ہیں؟*

یو ایس نیشنل لائبریری آف میڈیسین کے مطابق ٹانسلز جسم کے لمفی سسٹم کا حصہ ہوتے ہیں جو کہ انفیکشن کے خلاف لڑائی میں مددگار ہوتا ہے۔ چونکہ یہ گلے کے پیچھے موجود ہوتے ہیں، اسی لیے ٹانسلز ایسے جراثیم جو ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں، کہ خلاف پہلی دفاعی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔ ٹانسلز کو پروردگار نے اس طرح بنایا ہے کہ وہ جراثیموں کو جسم میں آگے جانے سے روکتے ہیں جبکہ دفاعی نظام کو حملہ آور سے خبردار کرکے لڑنے کے لیے تیار کرتے ہیں۔
تاہم اگر زیادہ کام کرنے پر ٹانسلز بھی انفیکشن کا شکار ہوسکتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ سوج اور خراش کا شکار ہوجاتے ہیں، جسے ٹانسلز کا ورم بھی کہا جاتا ہے، ایسا ہونے پر آپ کو بھی گڑبڑ کا احساس ہوجاتا ہے کیونکہ گلا سوج جاتا ہے جبکہ تکلیف بھی ہوتی ہے، تاہم اس کی چند دیگر علامات بھی ہوتی ہیں۔

*سانس میں بو*

سانس میں بو مختلف وجوہات کی بناءپر ہوسکتی ہیں، مگر اس کی ایک بڑی وجہ ٹانسلز اسٹون یا پتھری بھی ہوسکتی ہے۔ ٹانسلز کی یہ پتھری عام طور پر اس غدود میں پھنسنے والے کچرے سے بنتی ہے، عام حالات میں بھی ٹانسلز بیکٹریا، مردہ خلیات اور دیگر مواد سے بھرے ہوتے ہیں۔ یہ پھنس جانے والا کچرا وقت کے ساتھ سفید ڈبوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے، جس کے نتیجے میں سانس بدبودار ہوجاتی ہے۔ اس کا علاج آسان ہے بس دانتوں پر برش اور غرارے کرنا اس پھنسے ہوئے کچرے کو نکالنے میں مدد دیتا ہے۔

*نگلنے میں تکلیف ہونا*

ویسے تو اکثر ٹانسلز اسٹون چھوٹے اور مشکل کا باعث نہیں بنتے، مگر جب وہ بڑے ہوں تو کھانا نگلنا تکلیف دہ ہوجاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق جب یہ پتھری سخت ہوتی ہے تو مسئلے کا باعث بنتی ہے اور اگر کھانا نگلنے میں تکلیف ہو جبکہ گلے میں خراش یا الرجی وغیرہ کے شکار نہ ہو، تو یہ بڑے ٹانسلز اسٹون کی موجودگی کا عندیہ ہوتا ہے۔اس مسئلے سے نجات کے لیے ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

*خراٹے*

طبی ماہرین کے مطابق ٹانسلز میں بڑی پتھری خراٹوں کا باعث بھی بنتی ہے کیونکہ یہ ہوا کی گزرگاہ پر اثرانداز ہوتی ہے، ویسے تو یہ عارضہ خطرناک نہیں، ماسوائے اگر سانس رکنے کی تکلیف بھی ساتھ میں لاحق ہوجائے۔ ٹانسلز کے باعث خراٹوں کا مسئلہ اکثر بچوں کو ہوتا ہے مگر ہر سو میں سے چار بالغ افراد بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسا ہونے پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا بہتر ہوتا ہے۔

*کیا ٹانسلز نکلوانا ٹھیک ہے؟*

ٹانسلز کو معمولی سرجری سے نکال دینا بہت عام ہے کیونکہ مختلف ٹشوز پھر یہ کام کرنے لگتے ہیں، تاہم طبی ماہرین کے مطابق اب سرجری ہی واحد علاج نہیں بلکہ دیگر طریقہ علاج بھی موجود ہیں۔ اب یہ سرجری آخری آپشن ہونا چاہئے اور وہ بھی مسائل کے حل کا کوئی ٹھوس حل نہیں۔

🎇🕌🌴🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🌴🕌🎇🎇🕌🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🕌🎇🎇🕌🌴🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🌴🕌🎇

Hathon men honay wali Kharish ka Elaaj aur Bachao

🎇🕌🌴🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🌴🕌🎇🎇🕌🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🕌🎇🎇🕌🌴🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🌴🕌🎇

ہاتھوں کی خارش

*

ہاتھوں میں ہونے والی خارش سے بچنے کے لئے انتہائی آسان نسخے

*

اگر ہاتھوں میں مستقل خارش ہونے لگے تو انسان بہت ہی مشکل میں پھنس جاتا ہے ۔ہاتھوں میں خارش کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں،آئیے آپ کو ان کی وجوہات اور اس کے تدارک کے بارے میں بتاتے ہیں

*سورائسیس*

جلد کی اس بیماری میں ہاتھوں میں خارش ہونے لگتی ہے،سرخی آنے کے ساتھ خارش میں اضافہ ہونے لگتاہے۔اس بیماری کی شدت میں ہاتھوں کی جلد اتر جاتی ہے اور ان میں دراڑیں بھی پڑجاتی ہیں۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس بیماری کی وجوہات ابھی تک معلوم نہیں ہوسکیں،کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ والدین سے اولاد کو منتقل ہوتا ہے اور کبھی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے یہ بیماری لاحق ہوسکتی ہے۔اگر آپ اس بیماری کی وجہ سے ہاتھوں میں خارش کا شکار ہیں تو سرخ مرچ کا پاؤڈر ہاتھوں میں لگائیں۔گو کہ اس کی وجہ سے آپ کو چبھن اور جلن ہوگی لیکن اس میں موجود ’کیپساسین‘ کی وجہ سے آپ کی خارش کم ہونے لگے گی

اس کے علاوہ ہلدی بھی ہاتھوں کی خارش دور کرنے کے لئے ایک مجردنسخہ ہے۔متعدد تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ اس بیماری کی وجہ سے ہونے والی خارش دور کرنے کے لئے ہلدی کا استعمال مفید ہے۔ہلدی میں موجود’کروکومین‘ہاتھوں کی خارش دور کرنے میں اہم کردارادا کرتی ہے۔ہلدی کو پانی میں ملاکر ایک پیسٹ بنائیں اور ہاتھوں پرلگاکر کپڑے سے باندھ لیں۔اگلی صبح کپڑا اتار کر ہاتھ دھولیں،اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ہلدی بستر پر نی لگے کیونکہ اس کے داغ صاف نہیں ہوتے۔

*ایگزیما*

جلد کی اس بیماری میں بھی ہاتھوں میں خارش کے ساتھ ان پر نشانات،خشکی،الرجی اور دیگر مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ماہرین جلد کا کہنا ہے کہ اس بیماری میں جلد میں انفیکشن کے ساتھ اس میں درد بھی ہونے لگتی ہے۔ہاتھوں میں پسینہ آنے کی وجہ سے مسائل میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔آپ کو چاہیے کہ ناریل کے تیل کا استعمال کریں،اس میں موجود انٹی بیکٹیریل اور انٹی فنگل خصوصیات کی وجہ سے آپ کو کافی سکون ملے گا اور یہ بیماری کم ہونے لگے گی۔تھوڑا سا ناریل کا تیل لیں اور رات کو سونے سے پہلے اسے ہاتھوں پر ملیں اور مساج کریں۔آپ چاہیں تو دن میں بھی ناریل کا تیل کئی بار لگاکر خارش سے نجات پاسکتے ہیں۔

*خشک جلد*

اس بیماری میں ہاتھوں کی جلد بغیر کسی سرخی کے خارش کا شکار ہوجاتی ہے اور کافی تکلیف ہوتی ہے۔اس بیماری کی بڑی وجوہات میں سے ایک آپ کے اردگرد ماحول ہے،اس طرح کے مسائل عموماًسردیوں میں بڑھ جاتے ہیں۔اگر آپ بھی اس مسئلے کا شکار ہیں تو اپنے ہاتھوں کو تر رکھیں اور اس مقصد کے لئے زیتون اور ناریل کے تیل کو ملاکرہاتھوں کا مساج کریں۔دن میں دو سے تین بار ان دونوں کے تیلوں کا مساج کرنے سے آپ کو خاطر خواہ سکون ملے گا۔

*Scabies*

یہ بیماری کیڑے مکوڑوں کے کاٹنے کی وجہ سے ہوتی ہے جس میں ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کے درمیان شدید خارش ہونے لگتی ہے۔اس بیماری سے نجات کے لئے ٹی ٹری آئل انتہائی مفید ہے۔آپ کو چاہیے کہ اس تیل کے ساتھ ہاتھوں کا مساج کریں۔ناریل کا تیل اور ٹی ٹری آئل کو مکس کریں اور ہر صبح اور رات کو سونے سے پہلے ہاتھوں کامساج کریں۔

*الرجیز*

مختلف طرح کی الرجیزکی وجہ سے بھی ہاتھوں میں خارش ہونے لگتی ہے۔یہ الرجی مختلف طرح کے کھانوں،ادویات اور بیماریوں سے ہوسکتی ہے۔ایسی صورت میں آپ چاہیں تو پر بتائے گئے طریقوں کواستعمال کرکے ہاتھوں کی خارش سے نجات پاسکتے ہیں۔



🎇🕌🌴🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🌴🕌🎇🎇🕌🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🕌🎇🎇🕌🌴🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🌴🕌🎇

منگل، 9 اپریل، 2019

Effects of Nail Polish on Body and Health

🎇🕌🌴🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🌴🕌🎇🎇🕌🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🕌🎇🎇🕌🌴🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🌴🕌🎇

Effects of Nail Polish On Body And Health

What Happens to Your Body 10 Hours After You Apply Nail Polish

Even the ones that are most conscious about their health might not notice how nail polishes are affecting their health and their bodies.
According to a study that was done not long ago, it was proven that even the most popular brands ofonail polishes in the United States are much harmful than we actually think.
What The Research Shows:
There was another study in which the researchers were looking for chemical toxins in the participants, which practices on 24 women who volunteered for the study. There was recorded presence of chemical toxins in every single one of them.
The reason for that, the nail polishes. The results were alarming, in every participant was recorded the presence of triphenyl phosphate, after only 10 hours of they have used nail polish.
The study that followed this one right after, in which the researchers were testing 10 types of different nail polishes for triphenyl phosphate, and they found it in 8 of them. Two of those 10 didn’t even had the chemical labeled on the back of the product. This means that more than 20% of the nail polishes that are out on the market in the United States have this harmful chemical in these Nail Polishes, and they are not even telling you about it.
What is Triphenyl Phosphate?
The worst thing about this dangerous chemical is that, it is disrupting our endocrine system, that is in charge of our hormones. The head researcher of the study, Dr. Heather Stapleton, reported that, this chemical (TPHP) can affect the reproduction, metabolism, development and hormone regulation as well.
Healthy hormonal development is the most important thing during and in the growth process, therefore this ingredients are highly dangerous and harmful for younger girls who are using nail polishes regularly. Also TPHP is a great threat for our overall health, and poses a risk when we are exposed to it. This chemical is known for being: AllergenSkin irritant, Reproductive Toxin, Endocrine Toxin, Neurotoxin (developmental effects).
Other Health Threats Dibutyl Phthalate  Phtha are some companies using for nail polishes that are replacing the TPHP for this ingredient. But this doesn’t mean that it is better for our health, because this ingredient causes similar health risks, like reproductive system toxins and hormonal disruption.
Toluene:
This is a chemical that is impeding the development in younger children, and it can also be found in breast milk. When exposed to it, it can cause an irritation of our skin.
Formaldehyde:
The formaldehyde is one of the most famous carcinogen ingredients, that has the ability to dissolve in the air and water. Exposing yourself to this chemical can cause difficulty breathing, asthma, and a scratchy throat. The ones suffering from chronic diseases, are more susceptible to poisoning from this harmful chemical. Natural Nail Polish Alternatives Besides all this, there are some companies for nail polishes that have decided to leave these harmful chemicals aside, and replace them with new natural alternatives, that don’t cause hormone disruption, cancer and allergies. Below we will give you a few of the best options that have the best prices and selection:
1. Peacekeeper Cause-Metics --
A nail polish company that has many different color varieties, and each one of them is infused with argan oil, and all are toxic-free. These are a great choice to keep your nails colored and moisturized all the time.
2. SpaRitual --
A brand for nail polishes, that is free of toxins and is 100% vegan.
3. Acquarella --
This company has more than 50 colors of nail polishes. Each one of them is water-based and they don’t contain mercury, dibutyl phthalate, toluene, formaldehyde or any other wheat products at all.
4. Honeybee Gardens --
 The best natural nail polish company, that produces many different colors. They are water-based, so you don’t need any rubbing alcohol to remove them from your nails, and they don’t contain any of these dangerous chemicals that we mentioned above, or any carcinogens. The nail polishes should only be a fun option for you to express your feelings, not to affect the health of young children or cause a threat for you.
After trying these nail polishes, you will never go back to the old ones, and you will also never compromise about your style or your wallet.


🎇🕌🌴🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🌴🕌🎇🎇🕌🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🕌🎇🎇🕌🌴🌅🎆🏝️🌌🕋🌌🏝️🎆🌅🌴🕌🎇

جمعرات، 4 اپریل، 2019

SUGAR 2 ki Ibtedai Alamaat

🎇🥀🌻🎆🎄🌴🌹🎋🌹🌴🎄🎆🌻🥀🎇

✒🔎📚
🔍
اللہ ﷻ نہ کرے
*کیا آپکو شوگر ہے؟*
ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ آپکو ذیابیطس، یعنی شوگر کا مرض لاحق ہے۔

*شوگر کی ابتدائی علامات*
شوگر کی ابتدائی علامات بہت ہی ہلکی ہو سکتی ہیں۔ گو کہ ’ڈائیابیٹیز ٹائپ ون‘ اور ’ڈائیابیٹیز ٹائپ ٹو‘ کی علامات ایک جیسی ہوتی ہیں، لیکن ’ڈائیباٹیز ٹائپ ٹو‘ کی علامات کا علم ہونا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔

ڈاکٹر آشا تھومس کہتی ہیں کہ لاکھوں مریضوں کو ذیابیطس لاحق ہوتی ہے، لیکن اُنہیں اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔ خاص کر ڈائیباٹیز ٹو تو بہت آہستہ آہستہ زور پکڑتی ہے، اور جب تک آپ اس کے ٹیسٹ نہیں کرائیں گے تو آپ اس سے لا علم رہیں گے۔

’امیریکن ڈائیبایٹیز ایسو سی ایشن‘ کا کہنا ہے کہ امریکہ میں دو کروڑ نوے لاکھ افراد کو یہ مرض لاحق ہے، اور اِن میں سے اسی لاکھ مریضوں میں اس کی تشخیص ہی نہیں ہوئی۔

تاہم، آپ کو صرف علامات سے علم نہیں ہوگا کہ آپکو شوگر ہے۔ اس کے لئے ایک ڈاکٹر ہی آپ کے خون کا ٹیسٹ کرائے گا اور پھر تشخیص ہو سکے گی کہ آپ کو شوگر ہے یا نہیں۔

*چلئیے دیکھتے ہیں کہ شوگر کی ابتدائی علامات کیا ہیں؟*
آپ کو بار بار پیشاب کی حاجت محسوس ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے گردوں کو آپ کے پیشاب میں موجود شوگر کی زیادہ مقدار کو خارج کرنے کیلئے زیادہ کام کرنا پڑاتا ہے۔

*دوسری علامت*
دوسری علامت یہ ہے کہ آپ کو عام معمول سے کہیں زیادہ پیاس لگتی ہے۔ جیسے جیسے آپ زیادہ پیشاب کرتے ہیں تو آپ کے اندر پانی کی کمی ہوتی ہے، اس لئے آپ کے اندر پانی پینے کی زیادہ خواہش جاگتی ہے۔ کچھ لوگوں کو معمول سے زیادہ بھوک لگتی ہے۔

*تیسری علامت*
تیسری علامت یہ ہے کہ مرد و خواتین کو پیشاب کی نالی میں انفیشکن ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ خواتین کے امراض سے متعلق ایک ڈاکٹر لوسیلی ہیوز کہتی ہیں کہ خواتین میں ایسی کسی انفیکشن کا بار بار ہونا بھی اس کی ایک علامت ہے۔

نیشنل کڈنی فاؤنڈیشن کے مطابق، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے جسم میں قوت مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے، جس کی وجہ سے آپ بار بار انفیکشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔

*چوتھی علامت*
چوتھی علامت یہ ہے کہ آپ کے وزن میں بغیر کسی تگ و دو کے کمی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ اُن کا وزن کم ہو. لیکن، شوگر کی وجہ سے وزن مین کمی کوئی صحت مند رجحان نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے جس میں موجود انسولین، خوراک میں پائے جانے والے گلوکوز کو پوری طرح سے ہضم نہیں کر پاتی۔ یہ گلوکوز آپکو توانائی فراہم کرتا ہے۔ اس لئے آپکا جسم، آپ کے اندر موجود چربی اور پٹھوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتاہے، تا کہ تونائی فراہم ہو سکے۔

*ایک اور علامت*
ایک اور علامت یہ ہے کہ آپ جسم میں تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں، اور آپ کو محسوس ہوتا ہے جیسے کہ آپ کو فلو ہے۔ بعض اوقات شریک حیات کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ان کا شریک سفر پہلے تو باہر جانے یا سیر سپاٹے میں خوشی محسوس کرتا یا کرتی تھی، لیکن اب وہ گھر پر ہی ٹھہرنا پسند کرتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آپ کے شریکِ سفر کو یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔

*تھکاوٹ*
تھکاوٹ کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آپ کے جسم کو تونائی فراہم کرنے کا اولین ذریعہ گلوکوز ہے،جس میں کمی ہونا شروع ہو جاتی، جس کی وجہ سے آپ کو تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔

اگر آپکی بینائی میں دھندلاپن پیدا ہو، یعنی آپکو دھندلا نظر آنا شروع ہو، تو یہ بھی شوگر کے مرض کی ایک علامت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر شوگر کو کنٹرول نہ کیا جائے، تو پھرڈیابیٹِک ریٹِنو پیتھی کا شکار ہو جاتے ہیں، یہ ایک ایسی حالت ہے جس سے آپ کی بینائی متاثر ہوتی ہے۔ بعض اوقات آنکھوں کے ڈاکٹر بھی، آپ کی بینائی کی وجہ سے شوگر کے مرض کی تشخیص کرتے ہیں۔

*ٹائپ ون اور تائپ تو ڈائیباٹیز*
آئی اب معلوم کرتے ہیں کہ ٹائپ ون اور تائپ تو ڈائیباٹیز کی علامات میں کیا فرق ہے۔ ٹائپ ون ڈائیباٹیز اور ٹائپ تو ڈائیبا ٹیز کی علامات عمومی طور پر ویسے تو ایک جیسی ہوتی ہیں۔ لیکن ٹائپ ون کی علامات تھوڑا اچانک آ لیتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک بچے میں فلو جیسی علامات نظر آسکتی ہیں، اور جب یہ علامت کچھ عرصے تک نہیں جاتی تو والدین بچے کو ڈاکٹر کے پاس لیکر جاتے ہیں، جہاں جا کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچے کو تو شوگر کی ٹائپ ون ہو گئی ہے۔ کئی بار والدین بچے کو اس لئے بھی ڈاکٹر کے پاس لیجاتے ہیں، کیونکہ وہ بہت ہی سستی کا مظاہرہ کرتا ہے، اور پھر ٹیسٹ کے بعد ڈاکٹر بتاتا ہے کہ بچے کو تو شوگر ہو گئی ہے۔

اس سے بلکل الٹ، ٹائپ ٹو ڈائیبایٹیز میں علامات کئی سال تک آتی جاتی رہتی ہیں، اور جب بگڑ جاتی ہیں، تو تب جا کر پتہ چلتا ہے کہ شوگر ہوگئی۔

*بہت مشکل*
شوگر کی دونوں اقسام کی علامات ایک جیسی ہونے کے باوجود، الجھا دینے والی یا غیر واضح کیوں ہیں؟ تو اس بارے میں ڈاکٹروں کا کہنا ہےکہ ٹائپ ٹو ڈائیباٹیز کی علامات کا پتہ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے، کیونکہ یہ آہستہ آہستہ جڑ پکڑتی ہیں۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ادھیڑپن اور ڈائیابیٹیز کی علامت میں مماثلت ہوتی ہے۔ جب انسان پر بڑھاپا آتا ہے تو اُس کی جلد خشک ہونا شروع ہوتی ہے، اور بار بار باتھ روم جانا پڑتا ہے۔ یہی علامات شوگر میں بھی ہوتی ہیں۔ اس لئےصرف علامات سے ٹائپ ٹو کی تشخیص مشکل ہے۔ اگر آپ کوئی ایسا دوا لیتے ہیں جس سے آپکو بار بار پیشاب کی حاجت ہوتی ہے، تو شوگر کی بھی یہی علامت ہے۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ مریض تھکاوٹ یا بار بار باتھ روم جانے کی اِن علامات کے ایسے عادی ہو جاتے ہیں کہ انہیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ان کی صحت کو کوئی مسئلہ درپیش ہے۔

*معائنہ کروائیں*
ڈاکٹر صاحبان کا کہنا ہے کہ اگر آپ میں ایسی کوئی بھی علامت پیدا ہو، تو آپ فوراً کسی ڈاکٹر سے رجوع کریں، اور فاسٹنگ بلڈ شوگر ٹیسٹ کیلئے کہیں۔ ویسے تو ٹائپ ٹو ڈائیباٹیز کسی کو بھی ہو سکتی ہے، لیکن اگر آپ کا وزن زیادہ ہے، آپ کا کولیسٹرول زیادہ ہے یا آپ کو بلڈ پریشر ہے، یا آپ سگریٹ نوشی کے عادی ہیں، یا پھر آپکے خاندان میں شوگر ہے، تو پھر آپکو اس مرض کے لاحق ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔ اگر آپکےخون کا ٹیسٹ ہوتا ہے تو پھر یہ بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ آپکو شوگر ہونے والی۔ تاہم، آپ اپنی خوراک اور ورزش سے ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ ہمارا مشورہ ہے کہ آپ باقاعدگی سے ڈاکٹر سے اپنا معائنہ کروائیں۔
✒🌹
🔎

🎇🥀🌻🎆🎄🌴🌹🎋🌹🌴🎄🎆🌻🥀🎇

VACCINE k barmen kuch Ghalatfehmian

🌹🎆🌴🥀🏝️🌻🎄🎇🎄🌻🏝️🥀🌴🎆🌹

ویکسین کے بارے ’سات‘ غلط فہمیاں جنہیں دور کرنا ضروری ہے

پاکستان میں کئی سالوں سے جاری پولیو مہم کو کئی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ کبھی حکومتی وسائل میں کمی تو کبھی دہشتگردوں کے حملے۔
مگر ریاست کی جانب سے پولیو مہم پر کامیابی سے عمل کے چیلنجز کے علاوہ، ملک میں بہت سے والدین مختلف ’خدشات‘ کی بنا پر اپنے پچوں کو یہ قطرے پلاتے ہی نہیں۔ اصل میں یہ خدشات نہیں ہوتے بلکہ اس مہم کے خلاف پھیلائی گئی غلط معلومات ہوتی ہیں۔
پاکستان میں پولیو مہم کے حوالے سے بہت ساری غلط فہمیاں موجود ہیں جیسے کہ کچھ لوگ اسے مسلمانوں کی آبادی کنٹرول کرنے کے لیے مغربی سازش قرار دیتے ہیں۔ ایسے خیالات کی مدد کے لیے ایسے غیر منطقی اور بےجا جواز پیش کیے جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے۔
مثال کے طور پر پولیو مہم سے منسلک اقوام متحدہ کی ایک اہلکار بتاتی ہیں کہ اسامہ بن لادن کو نشانہ بنانے کے لیے امریکی کارروائی کے بعد پاکستان میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے پچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرنے لگی۔
اس کی وجہ وہ یہ بتاتی ہیں کہ کیونکہ اس کارروائی میں کچھ لوگوں نے اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد کے مکان میں موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے ویکسنیشن کا بہانہ کر کے وہاں سے بچوں کے ڈی این اے نمونے لے لیے، اسی لیے اب ہر کوئی یہ سمجھنے لگا ہے کہ پولیو کے قطرے پلانے کے دوران بھی لوگوں کے ڈی این اے اکھٹے کیے جا رہے ہیں تاکہ غیر ملکی طاقتیں پاکستانی عوام کو مؤصر انداز میں نشانہ بنا سکیں۔
مگر پولیو وہ واحد بیماری نہیں جس کی ویکسنیشن کے بارے میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور نہ ہی پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں ایسے معاملات میں لوگ سائنس کو کھڑکی کے باہر پھینک دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں مختلف بیماریوں کی ویکسنیشن کے حوالے سے بہت سی غیر مصدقہ اطلاعات پر لوگ یقین رکھتے ہیں۔
مندرجہ ذیل ایسی سات غلط فہمیاں اور ان کی حقیقت بیان کی گئی ہے جو کہ ویکسنیشنز کے بارے میں دنیا بھر میں پائی جاتی ہیں۔
گذشتہ چند دہائیوں میں مغربی ممالک میں ویکسنیشن سے حفاظتی اقدامات میں کمی آنے کی وجہ برطانوی جراح اینڈیو ویکفیلڈ سے وابستہ ہے۔
سنہ 1997 میں انھوں نے ایک مشہور طبی جریدے ’دی لینسٹ‘ کے لیے ایک مضمون لکھا۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ خسرہ، کن پیڑے اور شدید بخار کی ویکسین ’ایم ایم آر‘ برطانوی بچوں میں آٹ ازم نامی بیماری کا سبب بن رہی ہے۔
تاہم اس حوالے سے ہونے والی تحقیقات میں ویکسین اور آٹ ازم کے مابین کسی تعلق کی نفی کی گئی ہے۔ دی لینسٹ نے بعد ازاں اس تحقیق کو مسترد کیا اور ویکفیلڈ کو برطانوی میڈیکل رجسٹری سے خارج کر دیا گیا۔
تاہم ان کا یہ دعوی برطانیہ میں حفاظتی ویکسین لگوانے کی شرح میں کمی کا باعث بنا۔ سنہ 1996 میں یہ شرح 92 فیصد تھی جو کہ سنہ 2002 میں 84 فیصد رہ گئی۔ اب یہ شرح 91 فیصد ہے مگر یہ اب بھی ڈبلیو ایچ او کی بتائی گئی 95 فیصد کی شرح سے کم ہے۔

2.’بچوں کا مدافعتی نظام اتنی زیادہ ویکسین برداشت نہیں کر سکتا‘
دو سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے کم کز کم 11 ویکسین موجود ہیں. لیکن کچھ والدین کو پریشانی ہے کہ ویکسین کا بہت زیادہ استعمال ان کے بچوں کے مدافعتی نظام کے لیے ٹھیک نہیں۔
ایک عام خدشہ ہے کہ ویکسینز انسانی جسم میں ان وائرس اور بیکٹیریا کو متعارف کراتی ہے جو ایک خاص مرض کی وجہ بنتے ہیں۔
تاہم سائنسدان اس کے متبادل نسخے استعمال کرتے ہیں تاکہ یہ جسم میں بیماری کا محرک نہ بن سکیں۔
اس کے بجائے ویکسینز جسم کو ’اصل خطرے‘ سے نمٹنے کے لیے تیار کرتی ہیں۔
ڈاکٹر پال اے اوفٹ نے ویکسینز اور نومولود بچوں کے مدافعتی نظام میں تعلق پر اپنے ایک مشہور تجزیے میں لکھا کہ ’بچے اپنی پیدائش سے پہلے ہی اپنے جسم میں بیرونی محرکات کو جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘
’پیدائش کے چند گھنٹوں کے اندر ہی وہ ویکسینز کے خلاف مدافعتی دفاع کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔‘
حفظانِ صحت میں بہتری وبائی امراض کی کمی کا باعث بنی ہے
3. ’بیماریاں ویکسین ایجاد ہونے سے پہلے ہی ختم ہو رہی تھیں‘
بحث یہ ہے کہ بہتر سماجی و معاشی صورتحال،بہتر خوراک اور صفائی ستھرائی ویکسین جتنی ہی مؤثر ہیں۔
یہ بات سچ ہے کہ ویکسینز کے متعارف ہونے سے پہلے ہی کچھ بیماریوں سے ہونے والی اموات کی شرح کم ہو رہی تھی۔ لیکن انفیکشن کے کم ہونے میں ویکسینز نے بھی کردار ادا کیا۔
’یو ایس سینٹر آف ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی)‘ کے مطابق سنہ 1960 میں خسرہ سے سالانہ اموات 5300 سنہ 2012 تک کم ہو کر صرف 450 رہ گئیں۔ جبکہ خسرہ کی پہلی ویکسین سنہ 1963 میں آئی۔
لیکن ویکسین نے صرف بقا کی شرح کو بہتر نہیں کیا بلکہ ڈرامائی طور پر پانچ سال کے اندر ہی بیماری کے کیسز کو بھی کم کیا۔
اور اس حوالے سے کافی اچھے شواہد موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ ویکسین کی کمی بیماری کے دوبارہ لوٹ آنے کی وجہ ہو سکتی ہے۔
ستر کی دہائی میں جاپان اور سویڈن میں ایک اور وبائی مرض کالی کھانسی کی وجہ سے اموات میں خاصہ اضافہ دیکھا گیا جس کی وجہ یہ تھی کہ زیادہ تر بچوں کو حفاظتی ویکسین نہیں دی گئی تھی۔
صرف وٹامن کا استعمال وبائی امراض سے نہیں بچا سکتا
4. ’زیادہ تر لوگ جو بیمار ہوتے ہیں جو ویکسین لگواتے ہیں‘
ویکسین کی مخالفت کرنے والے افراد کے پاس سب سے بڑی دلیل یہی ہے۔
کوئی ویکسین 100 فیصد موثر نہیں ہوتی اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق بچوں کو دی جانے والی حفاظتی ویکسین 85 فیصد سے 95 فیصد بچوں میں ہی موثر ہوتی ہے۔
ہر شخص ویکسین پر مختلف قسم کا ردِعمل دیتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ حفاظتی ویکسین لگوانے والے تمام افراد مدافعتی نظام قائم نہیں کر سکتے۔
ویکسین لگوانے والے افراد کی ویکسین کا استعمال نہ کرنے والوں سے زیارہ بیمار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ویکسین نہ لگوانے والے تعداد میں بہت زیادہ ہیں۔
ویکسین استعمال نہ کرنے والوں میں بیماری کی شرح کافی زیادہ ہے۔
ویکسین عالمی ادویہ سازی کی مجموعی مارکیٹ کا تین فیصد سے بھی کم ہے
5.’بڑی ادویہ ساز کمپنیوں کے لیے کمائی کا ذریعہ‘
ڈبلیو ایچ او کے ہیلتھ اکنامسٹ میلود کادر کے مطابق سنہ 2013 میں ویکسین کی عالمی مارکیٹ کی قدر 24 ارب امریکی ڈالر تھی۔
اسی سال یہ ادویات کی عالمی مارکیٹ کی مجموعی قدر کا تین فیصد سے بھی کم تھا۔
حالیہ برسوں میں ویکسین کی مارکیٹ کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجوہات میں چین جیسے صنعتی ممالک میں ویکسین پروگراموں کا پھیلاؤ اور دولت مند افراد کا اس حوالے سے تحقیق کے لیے چندہ دینے کا رجحان شامل ہے۔ مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔
لیکن حفاظتی ویکسین لگوانے کافائدہ مجموعی طور پر انسانیت کو ہے کیوں کہ بیمار ہونا اس سے کہیں زیادہ مہنگا ہے۔
سنہ 2016 میں جان ہوپکنز یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا کے سب سے کم آمدن والے 94 ممالک میں ویکسین پر خرچ کیے جانے والے ہر ڈالر سے صحت پر آنے والے اخراجات میں 16 ڈالر کو بچایا جاتا ہے۔
ایک ملک میں کسی وبائی مرض پر کنٹرول کا یہ مطلب نہیں کہ ویکسین نہ پلائی جائے
6. ’ویکسین میں موجود غیر محفوظ مادے‘
ایک اور خدشہ جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو ویکسین لگواتے ہوئے ہچکچاتے ہیں وہ ویکسین میں فارمل ڈی ہائیڈ، پارہ یا ایلومینیم جیسے مادوں کا استعمال ہے۔
یہ مادے ایک مخصوص مقدار سے زیادہ استعمال کی صورت میں نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
لیکن ویکسین میں موجود ان کی مقدار نقصان دہ نہیں۔ یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے مطابق ایک عام ویکسین کی 0.5 ملی لیٹر خوراک میں پارے کی مقدار 25 مائیکرو گرام ہوتی ہے۔
ادارے کے مطابق یہ مقدار 85 گرام ٹونا مچھلی میں موجود پارے کی مقدار کے برابر ہے۔
افغانستان اور پاکستان میں ویکسین ٹیم کو سیکیورٹی خدشات لاحق رہتے ہیں
7. ’ویکسینز مغربی سازش کا حصہ ہیں‘
ایسے اعتقاد ابھی تک موجود ہیں جن کے مطابق ویکسینز شہری آبادیوں کو نشانہ بنانے کی سازش کا حصہ ہیں۔
شمالی نائجیریا میں پولیو کے خلاف مہم اس وجہ سے روک دی گئی کیوں کہ ان کا ماننا تھا کہ یہ لڑکیوں میں بانجھ پن اور ایڈز کی وجہ بن رہی ہے۔ پولیو ورکرز پر حملے بھی کوئی نئی بات نہیں۔
نائجیریا کے علاوہ، پاکستان اور افغانستان وہ ممالک ہیں جہاں پولیو وائرس موجود ہے، ان ممالک میں بھی اسی طرح کی فرضی باتیں مشہور ہیں۔
ویکسین پروگرامز کے مقاصد کے حوالے سے موجود قیاس آرائیاں مکمل طور پرغلط بھی نہیں ہیں۔ مارچ 2011 میں امریکی ادارے سی آئی اے نے پاکستان میں موجود القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے ڈی این اے نمونے حاصل کرنے کے لیے ہیپاٹئٹس بی کی جعلی دیکسینیشن مہم چلائی تھی۔
بعد ازاں یہ راز افشاں ہوگیا اور پاکستان جیسا ملک جہاں ویکسین پلانے کی شرح پہلے ہی کم ہے، میں اس حوالے سے خدشات مزید مستحکم ہو گئے۔

🌹🎆🌴🥀🏝️🌻🎄🎇🎄🌻🏝️🥀🌴🎆🌹

AUTISM aur uski Takhsheesh Khwateen aur Larkiyon men

🎇🎄🌻🌹🎆🌴🥀🏝️🥀🌴🎆🌹🌻🎄🎇

کیا خواتین اور لڑکیوں میں آٹزم کی تشخیص مشکل ہے؟
آٹزم ساری عمر رہنے والی ایک ایسی بیماری ہے جس میں مریض کا لوگوں سے بات کرنا متاثر ہوتا ہے
ایلس رائے نامی برطانوی مصنفہ کا کہنا ہے کہ آٹزم کا شکار لڑکیاں اور خواتین بہت خاموش طبیعت، شرمیلی اور اپنے آپ میں گم رہنے والی ہوتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اکثر ان خاموش لڑکیوں کے مسائل لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔
ایلس کو بتایا گیا کہ وہ آٹزم کا شکار تھیں لیکن وہ ان کم خواتین میں شامل ہیں جن کے مرض کی تشخیص ہوئی۔
آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر یا اے ایس ڈی ساری عمر رہنے والی ایک ایسی بیماری ہے جس میں مریض کا لوگوں سے بات کرنا متاثر ہوتا ہے۔ انسان کی ذہنی استعداد کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے تاہم یہ مختلف افراد میں مختلف سطح پر ہوتا ہے کبھی یہ کم اور کبھی بہت زیادہ متاثر کرتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر 160 میں سے ایک بچہ آٹزم کا شکار ہوتا ہے لیکن اگر ہم اس مرض کی تشخیص کے حوالے سے دیکھیں تو اس میں مرد و خواتین میں تعداد کے اعتبار سے بہت فرق نظر آتا ہے۔
برطانیہ میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق تقریباً سات لاکھ افراد آٹزم کا شکار ہیں، صنفی تناسب سے تقریباً ہر دس مردوں کے مقابلے ایک خاتون اس کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں کی جانے والی دیگر تحقیقات کے مطابق یہ تناسب 1:16 ہے۔
لیکن اگر تشخیص کے پیرائے میں صنف کے حوالے سے کوئی تعصب پایا جاتا ہو؟ آٹزم کے ادادرے برٹش نیشنل آٹسٹک سوسائٹی سینٹر کی ڈائریکٹر کیرول پووے کے مطابق اس مسئلے کی نشاندہی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
برطانیہ کی نئی سائنسی تحقیق جس کا مقصد خواتین میں آٹزم کی علامات دیکھنا ہے، کے مطابق اصل میں یہ تناسب 3:1 کے قریب ہو سکتا ہے۔
اگر یہ درست ہے تو دنیا بھر میں ہزاروں لڑکیاں اس معذوری سے لاعلم اس کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں۔
برطانیہ میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق تقریباً سات لاکھ افراد آٹزم کا شکار ہیں
اس بیماری کی تشخیص ضروری ہے
ایلس کہتی ہیں ’ مجھ میں اس کی تشخیص اس وقت ہوئی جب میں 22 برس کی تھی۔‘
میں تب تک تمام عمر یہ سوچتی رہی کہ میں ’مختلف‘ کیوں ہوں، بہت خوف زدہ محسوس کرتت تھی کیونکہ میں مختلف تھی اور فٹ ہونے اور مختلف نہ لگنے کی کوشش کرتی رہی۔‘
لیکن تشخیص کے بعد ایلس کی زندگی بدل گئی: ’اب میرے پاس اس کے لیے ایک نام ہے اور ایک وجہ ہے کہ میں مختلف کیوں ہوں۔ مخلتف ہونا بہت زیادہ خوف ناک ہوتا ہے جن آپ کو یہ علم بھی نہ ہو کہ ایسا کیوں ہے- آپ سوچتے ہیں کہ آپ مکمل طور پر تنہا ہیں۔‘
’تشخیص کے بعد ذہنی سکون ملنے اور خود کو قبول کرنے سے اب میں اس قابل ہو رہی ہوں کہ اپنے طرز زندگی کو اپنی خاص ضروریات کے مطابق تبدیل کر سکوں۔‘
’میں اب اس قابل ہو چکی ہوں کہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو بتا سکوں کہ مجھے مشکلات درپیش ہیں اور میری سوچ اور روئیہ تھوڑا سا مختلف ہو سکتا ہے۔‘
’اس سب سے میری دماغی صحت میں بڑے پیمانے پر بہتری آئی ہے اور زیادہ بامعنی اور لطف اندوز رشتوں میں اضافہ ہوا ہے۔‘
ایلس کی طرح بہت سے لوگوں کو تشخیص کے ذریعے یہ جاننے میں مدد ملی کہ وہ ایسا کیوں محسوس کرتے ہیں اور دوستوں اور خاندان والوں اور دوستوں نے انھیں قبول کیا اور سمجھنے میں مدد ملی۔
آٹزم کی تشخیص اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس میں مبتلا اکثر لوگ بے چینی، ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور خود کو نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔
برطانیہ میں کی جانے والی ایک چھوٹی تحقیق کے مطابق بھوک کی کمی کی بیماری کا شکار ہو کر ہسپتال میں داخل ہونے والی 23 فیصد خواتین آٹزم کے تشخیصی معیار پر پورا اترتی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر160 میں سے ایک بچہ آٹزم کا شکار ہوتا ہے
خواتین اور لڑکیوں میں اس کا پتہ کیوں نہیں لگایا جا سکتا؟
لڑکیوں اور خواتین میں آٹزم کی علامات لڑکوں اور مردوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ شاید سب سے اہم بات یہ کہ وہ علامات باآسانی نظر انداز ہو سکتی ہیں، ایسا خاص طور پر تیزی سے کام کرتے ہوئے آٹزم کی صورت میں ہو سکتا ہے۔
ایک اور مشکل جو محققین کو درپیش ہے وہ یہ کہ آٹزم کا شکار لڑکیوں کا روئیہ اگر بہترین نہیں تو کم از کم قابل قبول ضرور ہوتا ہے- کیونکہ لڑکوں کے مقابلے لڑکیاں کم گو، تنہائی کا شکار، دوسروں پر انحصار کرنے والی حتی کہ اداس رہتی ہیں۔
وہ آٹزم کا شکار لڑکوں کی طرح کئی شعبوں میں جذباتی اور غیر معمولی حد تک دلچسپی رکھ سکتی ہیں- لیکن وہ ٹیکنالوجی اور ریاضی کے شعبوں کی جانب جھکاؤ نہیں رکھتی ہیں۔
آٹزم کے مرض کا شکار ایک لڑکی کی والدہ کا کہنا ہے ’دکھ کے ساتھ لیکن مغربی معاشرے میں اس قسم کے رویے رکھنے والی لڑکیوں کو تشخیص یا علاج کے بجائے نظرانداز یا تنگ کیا جاتا ہے۔`
ایلس کہتی ہیں ’باہر سے دیکھنے والوں کے مطابق اس قسم کا فرد غیرجانبدار پس منظر رکھنے والا شخص ہوتا ہے۔ وہ چیلنج کرنے والی یا شرارتی نہیں ہے- اس لیے کوئی ان پر توجہ نہیں دیتا ہے۔`
لڑکیوں اور خواتین میں آٹزم کی علامات لڑکوں اور مردوں سے مختلف ہوتی ہیں
تشخیص میں مشکلات
ایلس جو کہ شرمیلی لیکن پر زور طریقے سے اپنا مؤقف پیش کر سکتی ہیں- ڈاکٹر کے پاس ان تمام نکات کی ایک فہرست لے کر گئیں جن کے ذریعے وہ بتا سکتی تھیں کہ وہ کیوں سوچتی ہیں کہ انھیں آٹزم ہے- جس کے بعد انھیں تشخیص کے لیے بھیجا گیا۔
لیکن اس صورت میں کیا ہو گا اگر آپ کم عمر ہیں؟ کیا ہو گا اگر آپ کو نہیں معلوم کہ اپنے آپ کو کیسے بیان کرنا ہے؟ یا کوئی اور آپ کی جگہ بولنے کی کوشش کر رہا ہو؟
میریلو کہتی ہیں ’ جب انھوں نے میری بیٹی میں اے ایس ڈی کی شناخت کی تو مجھے سکون ملا۔` لیکن ایک ماں کیسے سکون محسوس کر سکتی ہے جب اس کی دس سالہ بیٹی میں ایک ایسی بیماری کی تشخیص ہو جس کا کوئی علاج نہیں اور جو اس کی پوری زندگی پر اثر انداز ہو گی۔‘
لیکن میریلو نے کئی سال جدوجہد کی تاکہ ڈاکٹر اور ٹیچرز یہ پتہ چلا سکیں کہ ان کی بیٹی صوفیہ کہ ساتھ کیا مسئلہ ہوا۔
وہ اس نقطے تک پہنچنے کو اس جنگ کی ایک سزا سمجھتی ہیں، جس کے ذریعے وہ سمجھ سکتیں کہ ان کی چھوٹی سی بیٹی کی انتہائی اداسی کی وجہ کیا ہے۔‘
اے ڈی ایس بچپن میں شروع ہوتا ہے اور لڑکپن اور جوانی تک جاری رہتا ہے تاہم ای ایس ڈی کا شکار کچھ افراد آزادانہ طور پر رہ سکتے ہیں جبکہ کچھ شدید قسم کی معذوری کا شکار ہوتے ہیں اور عمر بھر انھیں کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگر والدین اور خیال رکھنے والوں کے پاس کے درست معلومات ہوں تو وہ ٹریننگ کے ذریعے خاص صلاحیتیں حاصل کر سکتے ہیں جیسا کہ بات چیت کرنے اور سماجی رویے کو سمجھنے میں مدد حاصل کرنا- جس سے اے ایس ڈی کا شکار افراد اور ان کے ساتھ رہنے والوں کے طرز زندگی میں بہتری آ سکتی ہے۔
'میں جانتی تھی کہ صوفیہ تکلیف میں ہے اور میں مدد نہیں کر پا رہی تھی‘
’انتہائی حساس، جذباتی` ماں اور اس کا ’بگڑا‘ ہوا بچہ
میریلو کہتی ہیں ’میری بیٹی صوفیہ ایک مخصوص انداز میں بہت شرمیلی ہے۔ وہ سنجیدہ ہے اور بہت تخلیقی ذہین کی مالک ہے۔ اس کی ٹیچر اسے ایسے ہی بیان کرتی ہیں۔‘
’میں بہت پہلے سے اس بارے میں جانتی تھی۔ اسے اپنے ہم عمر لوگوں سے دوستی کرنے میں مشکل درپیش آتی ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کے مقابلے میں بہت چھوٹی تھی۔ میرا خیال تھا کہ اس کا تعلق اس کی قبل از وقت پیدائش سے ہے۔‘
لیکن میریلو نہیں چاہتی تھی کہ وہ ’کوئی جلدی کریں۔‘ میں اس وقت تک پریشان نہیں ہوئی کہ وہ مختلف ہے، جب تک میں نے سکول میں اس کی مشکلات کو نہیں دیکھا تھا۔ وہ سوتے وقت کہتی تھی ’ممی میرے کوئی دوست نہیں ہیں، کوئی مجھے پسند نہیں کرتا ہے۔‘
میریلو کہتی ہیں کہ ’میں اسے بتاتی رہی کہ ہم سب کے اچھے اور برے دن آتے ہیں لیکن پھر مجھے فکر ہونے لگی اور میں اکثر ٹیچرز سے پوچھتی تھی کہ کیا انھوں نے سکول میں کچھ ہوتے دیکھا۔ ہر بات ایک ہی جواب آتا: کچھ بھی نہیں ہو رہا۔‘
لیکن صورتحال بدتر ہوتی گئی اور میریلو کو ٹیچرز کے پاس جانا پڑا۔
’میں بہت پریشان تھی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا صوفیہ کو تنگ کیا جا رہا ہے۔ میں جانتی تھی کہ کچھ غلط ہے۔ مجھے کہا گیا کہ میں بہت زیادہ ’جذباتی‘ اور ’انتہائی حساس‘ ہوں۔ حتیٰ کے مجھ پر اسے ’بگاڑنے‘ کا الزام بھی لگایا گیا۔‘
میریلو اور ان کا خاندان یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور وہ سب اس تکلیف سے دوچار تھے۔ ’ ایک دفعہ میں نے ایک دوست کو بتایا کہ صوفیہ کو سکول لے جاتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں اسے قربان گاہ لے کر جا رہی ہوں۔‘
’کچھ ہی مہینوں میں، میں نے اپنی بیٹی کو ناراض اور مایوس ہوتے دیکھا- گھر سے باہر ٹھیک ہونے کا بہانہ کرنا لیکن گھر آ کر مجھے سب کچھ بتا دینا۔‘
میریلو کہتی ہیں ’ میرے خیال میں گھر میں صورتحال کو میں نے خراب کیا۔ میں نہیں سمجھ سکی کہ سب کچھ اتنا مشکل کیوں ہو رہا ہے۔ میں نے اس کے رونے پر اسے چپ رہنے کو کہا جب وہ ضد کر رہی تھی کہ وہ پاجامہ پہننے سے پہلے اپنے دانت صاف کرے گی۔ مجھے نہیں نظر آیا کہ اس سے کیا فرق پڑ سکتا ہے۔‘
میریلو کہتی ہیں ’میں جانتی تھی کہ صوفیہ تکلیف میں ہے اور میں مدد نہیں کر پا رہی تھی۔ میں نے کوشش کی اور میں ناکام رہی۔ بدقسمتی سے میرے جذبات مجھ پر حاوی آ گئے۔ شاید اگر میں نے جذبات کے بجائے حقائق کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی ہوتی کہ کیا ہو رہا ہے تو جلد تشخیص ہو سکتی تھی۔‘

’مغربی معاشرے میں آٹزم کا شکار لڑکیوں کو تشخیص یا علاج کے بجائے تنگ کیا جاتا ہے
صنفی فرق کو ختم کیا جائے اور آگے بڑھا جائے
ایلس کہتی ہیں کہ ابھی تک، ’کم گو لوگ جو اپنی زندگی خاموشی سے گزار لیتے ہیں، جو محنتی اور کافی مہذب ہوتے ہیں، وہ تعلیم اور صحت کے شعبے سے وابستہ پیشہ ورانہ افراد کی توجہ حاصل نہیں کر پاتے۔‘
لیکن سائنس کی دنیا میں تبدلی آرہی ہے اور صنفی تفریق کو آہستہ آہستہ ہی صحیح لیکن کم کیا جا رہا ہے
ایلس کہتی ہیں ’اگر آپ اس بارے میں کوئی مشورہ چاہتے ہیں کہ اے ایس ڈی کے متاثرین کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے تو آٹزم کے بارے میں پڑھیں اور سیکھیں۔ حتیٰ کہ آپ میں اس کی کبھی بھی تشخیص نہ ہوں، لیکن اس کے بارے میں بہت کچھ جان کر آپ دوسرے لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں- اس کا مطلب ہے کہ آپ ان تمام حکمت عملی سے آگاہ ہیں جو آٹزم کا شکار افراد استعمال کرتے ہیں۔ یہ واقعی زندگی میں تبدیلی لائے گا۔‘
’اگر آپ آٹزم کا شکار فرد ہیں جو پوری زندگی فٹ ہونے کی کوشش کرتے رہے ہیں، تو یہ یقین کرنا شروع کر دیں کہ فٹ نہ ہونا بھی ٹھیک ہے۔‘
آٹزم کے شکار افراد اور ان کے ارد گرد موجود لوگوں کی مدد کرنے والی سماجی مہم کرلی ہیئر پراجیکٹ کو چلانے والی ایلس کہتی ہیں ’درحقیقت آپ کے پاس دنیا کو دکھانے کے لئے بہت سی منفرد مہارت اور طاقت موجود ہے۔ اگر آپ ایسا کر سکتے ہیں تو ویسا کریں جیسا میں نے کیا اور اپنے مختلف پن کو اپنا ذریعہ معاش بنا لیں۔‘
لیکن کیا ہو گا اگر آپ والدین یا خیال رکھنے والے ہیں؟
پھر اپنے پچے کی ’مختلف‘ دلچسپیوں کو نوٹ کریں اور وہ جس طرح دنیا کو دیکھتے ہیں اس کی تعریف کریں اور اپنے دماغ میں یہ بات بٹھا لیں کہ جو آپ کے لیے آسان ہے وہ ان کے لیے مشکل ہو سکتا ہے۔
صوفیا خوش ہیں کہ آخر کار ان میں تشخیص ہو چکی ہے: ’میں سکون میں ہوں لیکن کچھ پریشان بھی ہوں۔ میں نہیں چاہتی کہ کلاس میں میرے ساتھیوں کو پتہ چلے کیونکہ میں مختلف لگنا نہیں چاہتی۔ اور میں نہیں چاہتی کہ کوئی میرا مذاق اڑائے۔
لیکن کیا وہ تشخیص نہ ہونے کو ترجیح دیتی؟ ’ نہیں نہیں میں جاننا چاہتی ہوں۔ اس سے میرے دل پر بوجھ کم ہوگا۔
٭ ۔
🌹🌴🎄🌻🥀🌻🎄🌴🌹
.......آٹزم......AUTISM
آج کل فیس بک بار بار ایک سوال.کسی نہ کسی صورت میں گردش کر رہا ہے. کی..
آٹزم کی ہومیو پیتهی میں کونسی دوا ہے.
اس میں میں آپکو دو باتیں بتا دیتا ہوں کہ ایک تو ہومیو میں کوئی خاص دوا کسی خاص نامی گرامی مرض کے لئیے نہیں کیونکہ ہمارا علاج ٹوٹل علامات پر ہوتا ہے.
اور دوسری بات یہ کہ آٹزم کیا ہے پہلے اس کے بارے معلومات ہونی ضروری ہیں.
اردو میں آٹزم پر یہ آرٹیکل خاص کر ہومیو ڈاکٹرز کے لئیے تیار کیا گیا ہے. باقی آپ لوگ خود دیکهیں کہ اس مرض کی دوا کون کون سی ہیں..
سلیم اشعر ہومیو پہته...
ﺁﭨﺰﻡ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﺍﯾﺴﯽ ﺫﮨﻨﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﺩ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﮔﻢ
ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ . ﺑﭽﯽ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ . ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﻟﻔﻈﯽ , ﻏﯿﺮ ﻟﻔﻈﯽ
ﺍﻭﺭ ﺳﻤﺎﺟﯽ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﻌﻠﯿﻤﯽ ﻗﺎﺑﻠﯿﺖ ﺷﺪﺕ ﺳﮯ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ . ﺁﭨﺰﻡ
ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﺑﭽﮯ ﺑﮯ ﺗﮑﯽ ﺣﺮﮐﺎﺕ ﺩﮨﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ . ﻣﺎﺣﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﮨﻠﮑﯽ ﺳﯽ
ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﺑﮭﯽ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ . ﻋﻤﻮﻣﺎً ﺑﭽﮯ ﺩﯾﺮ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﻨﺎ ﺳﯿﮑﮭﺘﮯ
ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﯽ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺑﮩﺖ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ .
ﺁﭨﺰﻡ ﮐﻮ ﻧﺎ ﺍﮨﻠﯽ ﮐﮯ ﻣﺮﺽ ﮐﯽ ﺑﺎ ﻗﺎﻋﺪﮦ ﺷﺎﺥ ﮐﺎ ﺩﺭﺟﮧ 1990 ﻣﯿﮟ
ﻣﻼ . ﯾﮧ ﻣﻮﺭﻭﺛﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻧﺴﻞ ﺩﺭ ﻧﺴﻞ ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ . ﺍﺳﮯ
ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﻧﻔﺴﯿﺎﺗﯽ ﺧﺮﺍﺑﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺠﻤﻮﻋﮧ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ .
ﯾﮧ ﺧﺮﺍﺑﯽ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ . ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً 18 ﻣﺎﮦ ﺳﮯ 3 ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﯾﮧ
ﻭﺍﺿﺢ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ . ﺟﺪﯾﺪ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺁﭨﺰﻡ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﺷﺎﻣﻞ
ﺗﮭﮯ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺩﺍﺩﺍ ﯾﺎ ﻧﺎﻧﺎ 50 ﺑﺮﺱ ﯾﺎ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﭖ ﺑﻨﮯ . ﮐﻨﮓ ﮐﺎﻟﺞ
ﻟﻨﺪﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺎﺭ ﺍﯾﻮﯼ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺩﺍﺩﺍ ﯾﺎ
ﻧﺎﻧﺎ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻓﺮﺩ ﭘﺮ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﺛﺮﺍﻧﺪﺍﺯ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ .
ﺩﻟﭽﭗ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﯿﻨﺰ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺍﺑﻨﺎﺭﻣﻞ ﺳﯿﻠﺰ ﻓﺮﺳﭧ ﺟﻨﺮﯾﺸﻦ
ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺍﮔﻠﯽ ﻧﺴﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﭨﺰﻡ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ .
ﻣﺰﯾﺪ ﺩﻟﭽﺴﭗ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺁﭨﺰﻡ ﮐﮯ ﺷﮑﺎﺭ ﺑﭽﮯ ﮐﻨﺪ ﺫﮨﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺑﻠﮑﮧ
ﻏﯿﺮ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺫﮨﺎﻧﺖ ﮐﮯ ﺣﺎﻣﻞ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ . ﯾﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮦ ﻣﻮﺿﻮﻋﺎﺕ
ﭘﺮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ .
ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻥ ﻧﯿﻮﭨﻦ , ﺁﺋﻦ ﺳﭩﺎﺋﻦ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﺳﯿﻘﯿﺎﺭ ﻣﻮﺯﺭﭦ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ
ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺁﭨﺰﻡ ﮐﺎ ﻣﺮﯾﺾ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺳﺐ ﮨﯽ ﻏﯿﺮ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ
ﺫﮨﺎﻧﺖ ﮐﮯ ﺣﺎﻣﻞ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﺗﮭﮯ

🎇🎄🌻🌹🎆🌴🥀🏝️🥀🌴🎆🌹